یاد وہ بھی نہیں آتا ہے پریشان جو ہیں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 173
کچھ نہ کچھ بھول تو ہوجاتی ہے انسان جو ہیں
یاد وہ بھی نہیں آتا ہے پریشان جو ہیں
صرف اتنا کہ بڑی چیز ہے ملنا دل کا
ہم کوئی بات سمجھتے نہیں ناداں جو ہیں
رونقِ شہر سے مایوس نہ ہو بانوئے شہر
خاک اڑانے کو ترے بے سرو سامان جو ہیں
خیر دُنیا مری وحشت کے لیے تنگ سہی
اور یہ عرصۂ باطن میں بیابان جو ہیں
اے شبِ دربدری آنکھ میں روشن کیا ہے
کچھ ستارے کہ سرِ مطلعِ امکان جو ہیں
اگلے موسم میں ہماری کوئی پہچان تو ہو
ان کو محفوظ رکھیں تارِ گریبان جو ہیں
رات کی رات فقیروں کی بھی دلداری کر
دائم آباد زمیں، ہم ترے مہمان جو ہیں
عرفان صدیقی

تبصرہ کریں