پرانی سے نئی پود تک

رات جب باغ کے ہونٹوں پہ تبسّم نہ رہا

رات جب باغ کی آنکھوں میں

تماشا کا تکلّم نہ رہا

غنچے کہنے لگے:

’’رکنا ہے ہمیں باغ میں ’’لا سال‘‘ ابھی‘‘

صبح جب آئی تو لا سال کے

جاں کاہ معمّا کا فسوں بھی ٹوٹا!

صبح کے نام سے اب غنچے بہت ڈرتے ہیں

صبح کے ہاتھ میں

جرّاح کے نشتر سے بہت ڈرتے ہیں

وہ جو غنچوں کے مہ و سال کی کوتاہی میں

ایک لمحہ تھا بہت ہی روشن

وہی اب ان کے پگھلتے ہوئے جسموں میں

گُلِ تازہ کے بہروپ میں

کِن زخموں سے دل گیر ہے، آشفتہ ہے!

رات میں خواب بھی تھے

خوابوں کی تعبیر بھی تھی

صبح سے غنچے بہت ڈرتے ہیں!

غنچے خوش تھے کہ یہ پھول

ہوبہو اُن کے خد و خال لیے

اُن کا رنگ، ان کی طلب،

ان کے پر و بال لیے

اُن کے خاموش تبسّم ہی کی پنہائی میں ۔۔

کیا خبر تھی انہیں وہ کیسے سمندر سے

ہوئے ہیں خالی!

جیسے اک ٹوٹے ہوئے دانت سے

یہ ساری چٹانیں اٹھیں

جیسے اک بھولے ہوئے قہقہے سے

سارے ستارے اُبھرے

جیسے اک دانہ ءِ انگور سے

افسانوں کا سیلاب اُٹھا

جیسے اِک بوسے کے منشور سے

دریا جاگے

اور اک درد کی فریاد سے

انساں پھیلے

اُنھیں (اُن غنچوں کو) امید تھی

وہ پھول بھی اُن کے مانند

ان کی خودفہمی کی جویائی سے

پیدا ہوں گے

اُن کے اُس وعدہ ءِ مبرم ہی کا

ایفا ہوں گے

پھول جو اپنے ہی وہموں کے تکبّر کے سوا

کچھ بھی نہیں

اُن کی (اُن غنچوں کی)

دلگیر صدا سنتے ہیں،

ہنس دیتے ہیں!

ن م راشد