لاتے ہیں ایک قبر کی چادر بھی سات ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 144
بازار سے ہر عید سے پہلے کی رات ہم
لاتے ہیں ایک قبر کی چادر بھی سات ہم
تاریخ نے دئیے ہیں ہمیں نام کیا سے کیا
کرنے گئے جو زیرِ نگیں سومنات ہم
تیور ہی اہلِعدل کے کچھ اس طرح کے تھے
پلٹے ہیں حلق ہی میں لیے اپنی بات ہم
لینے دیا جو تنُدیٔ موسم نے دم کبھی
نکلیں گے ڈھونڈنے کو کہیں پھول پات ہم
اپنے سفر کی سمت ہی الٹی ہے جب توکیوں
کرتے پھریں تلاش نہ راہِ نجات ہم
دربار میں نزاکت احساس کب روا
ماجدؔ کسے سُجھائیں نظر کے نکات ہم
ماجد صدیقی

تبصرہ کریں