دُھوپ کا موسم

میں رنگ میں دیکھتی تھی،خوشبو میں سوچتی تھی!

مجھے گماں تھا

کہ زندگی اُجلی خواہشوں کے چراغ لے کر

مرے دریچوں میں روشنی کی نوید بن کر اُتر رہی ہے

میں کُہر میں چاندنی پہن کر

بنفشی بادل کا ہاتھ تھامے

فضا میں پرواز کر رہی تھی

سماعتوں میں سحاب لہجوں کی بارشیں تھیں

بصارتوں میں گلاب چہروں کی روشنی تھی

ہوا کی ریشم رفاقتیں تھیں

صبا کی شبنم عنائتیں تھیں

حیات خوابوں کا سلسلہ تھیں !

کُھلیں جو آنکھیں توسارے منظر دھنک کے اس پار رہ گئے تھے

نہ رنگ میرے، نہ خُواب میرے

ہُوئے تو بس کچھ عذاب میرے

نہ چاند راتیں ،نہ پُھول باتیں

نہ نیل صبحیں ،نہ جھیل شامیں

نہ کوئی آہٹ،نہ کوئی دستک

حرف مفہوم کھو چکے تھے

علامتیں بانجھ ہو گئی تھیں

گلابی خوابوں کے پیرہن راکھ ہو چکے تھے

حقیقتوں کی برہنگی

اپنی ساری سفاکیوں کے ہمراہ

جسم و جاں پر اُتری جا رہی تھی

وہ مہرباں ،سایہ دار بادل

عذاب کی رُت میں چھوڑ کر مجھ کو جا چُکا تھا

زمین کی تیز دھوپ آنکھوں میں چُبھ رہی تھی

پروین شاکر

تبصرہ کریں