اس دن

اس دن تو وہ خود بھی شکستہ قابلِ رحم تھا لیکن،

کون تھا جس کے لئے

اس کی ہمدردی نہیں تھی،

جس پر اس کو ترس نہیں آیا تھا،

سو اُس نے اِس لمحے کے زیر اثر،

سب اشیا ء کو دیکھا،

دریا ندی سمندر اپنے کناروں میں سمٹے بل کھاتے ہیں،

تھل میں ویرانی رقصاں ہے،

پیڑ ہیں پاگل ہوا میں ہاتھ میں ہلاتے رہتے ہیں،

پنچھی کتنا اڑتے ہیں،

کو ہ فقط تخریب کی زد پر آ کر گرتے

زلزلےپیداکرتے رہتے ہیں،

ہوا بھی اندھی ہے،

جو سب سے مراسم رکھتی ہے،

اس جیسے سب انساں

اک کاہش میں رینگتی روحیں ہیں،

اس نے دیکھا،

سب کچھ اک مربوط نظام کی جکڑن میں ہے،

سب کچھ جدا جدا ہے،

لیکن اک دوجے سے

لاکھوں رشتے جڑے ہو ئے ہیں۔

توقیر عباس

تبصرہ کریں