آپ کیا کہہ کہ ہمیں لائے تھے کچھ یاد بھی ہے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 142
یہ جفائیں تو وہی ہیں وہی بیداد بھی ہے
آپ کیا کہہ کہ ہمیں لائے تھے کچھ یاد بھی ہے
کیوں قفس والوں پہ الزامِ فغاں ہے ناحق
ان میں صیاد کوئی قابلِ فریاد بھی ہے
آشیاں کی خبر تجھ کو نہیں ہے نہ سہی
یہ تو صیاد بتا دے چمن آباد بھی ہے
اپنے رہنے کو مکاں لے لیئے تم نے لیکن
یہ نہ سوچا کہ کوئی خانماں برباد بھی ہے
کارواں لے کے تو چلتا ہے مگر یہ تو بتا
راہِ منزل تجھے اے راہ نما یاد بھی ہے
تو حقارت سے جنہیں دیکھ رہا ساقی
کچھ انھیں لوگوں سے یہ میکدہ آباد بھی ہے
اِک تو حق دارِ نوازش ہے قمر خانہ خراب
دوسرے مملکتِ پاکِ خدا داد بھی ہے
قمر جلالوی

تبصرہ کریں