بجلیاں نکلتی ہیں بچ کے آشیانے سے

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 118
باز آگیا شاید اب فلک ستانے سے
بجلیاں نکلتی ہیں بچ کے آشیانے سے
خاک لے گئی بجلی میرے آشیانے سے
صرف چار چھ تنکے وہ بھی کچھ پرانے سے
کچھ نظر نہیں آتا ان کے منہ چھپانے سے
ہر طرف اندھیرا ہے چاند ڈوب جانے سے
حالِ باغ اے گلچیں فائدہ چھپانے سے
ہم تو ہاتھ دھو بیٹھے اپنے آشیانے سے
باغ ہو کہ صحرا ہو جی کہیں نہیں لگتا
آپ سے ملے کیا ہم چھٹ گئے زمانے سے
صبح سے یہ وقت آیا وہ ہیں بزمِ دشمن ہے
مٹ گئیں ہیں کیا یا رب گردشیں زمانے سے
یہ سوال پھر کا ہے کب قیامت آئی گی
پہلے بچ تو لے دنیا آپ کے زمانے سے
ان کے حسن پر تہمت رکھ نہ اپنے مرنے کی
وہ تو موت آنے تھی اک نہ اک بہانے سے
آگ لگ کے تنکوں میں کیا بہار آئی ہے
پھول سے برستے ہیں میرے آشیانے سے
جو جفائیں پہلی تھیں وہ جفائیں اب بھی ہیں
انقلاب کیا یا رب اٹھ گئے زمانے سے
مبتلا ہوئے ایسے آسماں کی گردش میں
اے قمر نہ بیٹھے ہم آج تک ٹھکانے سے
قمر جلالوی

تبصرہ کریں