وسعتیں ایک ایک ذرے کی بیاباں ہو گئیں

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 63
منزلیں غربت میں مجھ کو آفتِ جاں ہو گئیں
وسعتیں ایک ایک ذرے کی بیاباں ہو گئیں
چارہ گر کیونکر نکالے دل میں پنہاں ہو گئیں
ٹوٹ کر نوکیں ترے تیروں کی ارماں ہو گئیں
کیا کروں جو آہیں رسوائی کا ساماں ہو گئیں
مشکلیں ایسی مجھے کیوں دیں جو آساں ہو گئیں
ہم نفس صیاد کی عادت کو میں سمجھتا نہ تھا
بھول کر نظریں مری سوئے گلستاں ہو گئیں
آشیاں اپنا اٹھاتے ہیں سلام اے باغباں
بجلیاں اب دشمنِ جانِ گلستاں ہو گئیں
میری حسرت کی نظر سے رازِ الفت کھل گیا
آرزوئیں اشک بن بن کر نمایا ہو گئیں
کیا نہیں معلوم کون آیا عیادت کے لئے
اسی بند آنکھیں تری بیمارِ ہجراں ہو گئیں
بلبلِ ناشاد ہی منحوس نالے بند کر
پھول غارت ہو گئے برباد کلیں ہو گئیں
وہ اٹھی عاشق کی میت لے مبارک ہو تجھے
اب تو پوری حسرتیں او دشمنِ جاں ہو گئیں
کائناتِ دل ہی کیا تھی چار بوندیں خون کی
دو غذائے غم ہوئیں دو نذرِ پیکاں ہو گئیں
آسماں پر ڈھونڈتا ہوں ان دعاؤں کو قمر
صبح کو جو ڈوبتے تاروں میں پنہاں ہو گئیں
قمر جلالوی

تبصرہ کریں